شہادت نواسہ رسول(ص) پر دنیا بھر میں مجلس و ماتم/ کربلا میں قیامت کا منظر

IQNA

شہادت نواسہ رسول(ص) پر دنیا بھر میں مجلس و ماتم/ کربلا میں قیامت کا منظر

7:53 - August 19, 2021
خبر کا کوڈ: 3510052
تہران(ایکنا) دنیا کے مختلف ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یوم عاشور پر عزاداروں کا شور گریہ اور ماتم جاری ہے اور نواسہ رسول اللہ(ص) کے سوگ میں یاحسین(ع) کے نعروں کے ساتھ کربلا کے مجاہدوں کا ذکر مصائب بیان ہو رہا ہے۔

ایکنا نیوز- یوم عاشورا وہ عظیم مصیبت کا دن ہے جب کربلا کے تپتے صحرا میں تین دن کے پیاس کے ساتھ نواسہ رسول دو جہاں امام مظلوم حضرت امام حسین (ع) ، انکی آل اور اصحاب باوفا کو بیدردی اور وحشیانہ انداز میں نام نہاد مسلمانوں نے شہادت پر فایز کیا، کربلا میں سردار جنت کو نہ صرف پیاسا شہید کیا گیا بلکہ آپ کے ہمراہ اصحاب اور اولاد کے سروں کو کاٹا گیا اور نوک نیزہ پر کربلا سے شام تک لے جایا گیا اس حالت میں کہ آپ کے خواتین اور بچے اسیر تھے۔ اس دن کو دنیا کے مختلف ممالک میں عاشقان خاندان رسالت نواسہ رسول کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و ماتم کرتے ہیں اور کربلا میں تو گویا قیامت کا منظر مجسم ہوتا ہے، اس حوالے سے عاشور کی اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں۔

 

عاشور کا واقعہ يعقوب کليني اور مناقب ميں ابن شہرآشوب کے، اور ارشاد ميں شيخ مفيد کے بقول بروزِ ہفتہ، شيخ طوسي، علامہ مجلسي، سيد بن طاوس اور طبري کے مطابق بروز پير اور ناسخ ميں مرحوم سپہر اور قمقام ميں فرہاد ميرزا کے قول کے مطابق بروز جمعہ پيش آيا۔ 

بظاہر وہ دن اور وہ وقت گذر چکا ہے ليکن عاشورہ کي عظمت اور اس کے آثار آج بھي زمين اور زمان چھائے ہوئے ہيں اور دلوں کو فتح کر رہے ہيں اور روز بروز بيش از پيش زندہ اور پررونق ہوتے جا رہے ہيں۔ عاشورہ کي عظمت کے بارے ميں (معصومين کے کلام سے پہلے) بعض دانشوروں کے اعترافات کا تذکرہ دلچسپي سے خالي نہ ہوگا۔ 

پروفيسر ايڈورڈ براون عاشورہ کے بارے ميں کہتے ہيں: کيا کوئي قلب ايسا ہوگا جو کربلا کے اس اندوہناک حادثے کو سن کر حزن و ملال سے دوچار نہ ہو، حتيٰ کہ غير مسلم بھي۔ ہاں کوئي شخص بھي اس اسلامي جنگ کي روحاني پاکيزگي کا انکار نہيں کر سکتا جو اسلام کے پرچم تلے لڑي گئي۔

فرانس کا ڈاکٹر جوزف اسلام اور مسلمان نامي کتاب ميں عاشورہ کے بارے ميں لکھتا ہے: واقعہ کربلا کے بعد پيروانِ عليٴ غضبناک ہوگئے اور انہوں نے وقت کو غنيمت شمار کيا اور جنگوں ميں مشغول ہوگئے۔۔۔ اور عزاداري برپا کرنے لگے۔ يہاں تک کہ شيعوں نے عزاداري حسينٴ بن عليٴ کو اپنے مذہب کا جزو قرار دے ديا اور اس وقت سے لے کر آج تک بزرگانِ دين کے مقاصد کے مطابق کہ جو نسلِ رسول۰ سے بارہ افراد ہيں اور ان ميں سے ہر ايک کي گفتار، کردار اور رفتار رسول۰ کي گفتار و کردار کے برابر اور ہم وزنِ قرآن ہے، عزاداري حسينٴ ميں شريک ہوتے ہيں اور رفتہ رفتہ شيعہ مذہب کا يہ ايک رکن بن چکي ہے۔ تيز رفتار ترقي جو شيعوں نے مختصر مدت ميں کي ہے، اس کو ديکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگلي دو صديوں ميں وہ مسلمانوں کے تمام فرقوں سے تعداد ميں بڑھ جائيں گے اور اس کا سبب عزاداري امام حسينٴ ہے۔

آج دنيا ميں کوئي ايسي جگہ نہيں ہے جہاں نمونے کے طور پر دو يا تين آدمي شيعہ نہ ہوں اور امام حسينٴ کے لئے عزاداري برپا نہ کرتے ہوں۔ ۔۔ ہميں اعتراف کرنا پڑے گا کہ شيعوں نے اپنے مذہب اور عزاداري کي راہ ميں جان و مال سے کبھي دريغ نہيں کيا۔ 

عاشورہ کے بارے ميں نپولين بونا پارٹ کہتا ہے:

جب ہميں کوئي اجتماعي يا سياسي کام کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے کئي ہزار کارڈ چھاپنے ہوتے ہيں اور انہيں ہزارہا زحمتيں اٹھا کر لوگوں کو پہنچانا ہوتے ہيں، پھر بھي دس ہزار ميں سے ايک ہزار افراد ہي آتے ہيں اور کام بھي ادھورا رہ جاتا ہے۔ ليکن يہ مسلمان اور شيعہ کسي گھر پر ايک سياہ پرچم نصب کر کے يہ کہتے ہيں کہ امام حسينٴ کے لئے مجلس عزا برپا کر رہے ہيں، دسيوں ہزار افراد کسي دعوت نامے کے بغير دو گھنٹوں ميں حاضر ہوجاتے ہيں اور تمام اجتماعي، سياسي اور مذہبي مسائل حل ہوجاتے ہيں۔

ان اعترافات کو ديکھتے ہوئے اور عاشورہ کے گہرے اثرات کے پيش نظر بہتر ہے کہ ايک نظر روايات پر ڈالي جائے اور عاشورہ کي عظمت کو معصومين کي نظر سے ديکھا جائے۔

١۔ امت محمد۰ کي برتري کا راز:

جس طرح سے خاتم الانبياء تمام اديان پر برتري رکھتے ہيں، اسي طرح آخري نبي۰ کي امت بھي ’’امت وسط‘‘ اور ’’خير الامم‘‘ ہے۔ اس برتري ميں چند چيزوں کو اہم کردار حاصل ہے، ان ميں سے ايک عاشورہ ہے جس کو درجِ ذيل روايت ميں بيان کيا گيا ہے۔ 

حضرت موسيٰ عليہ السلام کي خدا سے مناجات ميں آيا ہے کہ حضرت موسيٰ نے بارگاہِ خداوندي ميں عرض کيا: اے پروردگار تو نے امتِ محمد۰ کو تمام امتوں پر برتري کيوں دي ہے؟ خدا نے فرمايا: دس خصوصيات کي وجہ سے۔ حضرت موسيٰ نے عرض کيا: وہ دس خصلتيں کيا ہيں تاکہ ميں بني اسرائيل کو حکم دوں کہ اس پر عمل کریں!

خطاب ہوا: وہ دس خصلتيں يہ ہيں: نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جہاد، جمعہ، جماعت، قرآن، علم و عاشورہ۔ جناب موسيٰ نے سوال کيا: پروردگار عاشورہ کيا ہے؟ فرمايا: بکائ کرنا يا بکائ جيسا انداز اپنانا (تباکي کرنا) اور مرثيہ خواني اور فرزندِ مصطفي کي مصيبت پر عزاداري کرنا۔ اے موسيٰ! اس زمانے ميں کوئي بندہ ايسا نہيں ہوگا جو فرزندِ رسول۰ (يعني حسينٴ بن عليٴ) پر بکائ يا تباکي کرے مگر يہ کہ جنت اس کے لئے لازم ہے اور کوئي بندہ ايسا نہيں ہے جو اپنے مال کا کچھ حصہ فرزندِ رسول۰ کي محبت ميں کھانا کھلا کر يا کسي اور طريقے سے خرچ کرے تو خدا ہر درہم کے بدلے ميں دنيا ميں اسے برکت عطا کرے گا اور آخرکار خدا کے فضل سے وہ داخلِ بہشت ہوگا اور اس کے گناہ بخش ديئے جائيں گے۔ 

اپني عزت و جلال کي قسم، عاشور کے دن کوئي مرد و عورت ايسا نہيں جو (حسينٴ کي خاطر) ايک قطرہ آنسو بہائے مگر يہ کہ اس کے لئے سو شہيدوں کا ثواب لکھا جائے گا۔ 

٢۔ عاشورہ اور نبي اکرم۰:

شيعہ اور سني کتابوں ميں پيغمبر اکرم۰ سے شہادتِ امام حسينٴ اور عاشورہ کے بارے ميں متعدد اقوال نقل ہوئے ہيں۔ ہم ان ميں سے ايک روايت پر اکتفائ کرتے ہيں جو اہلسنت کے طريق سے ہے۔ بي بي عائشہ کہتي ہيں: ايک دن جبرئيل رسول۰ خدا پر نازل ہوئے اور وحي کي۔ اس وقت حسينٴ حضور۰ کے پاس تشريف لائے اور ان کے شانوں پر سوار ہوگئے اور کھيلنے لگے ۔ جبرئيل نے کہا: اے محمد! آپ کے بعد جلد ہي تمہاري امت فتنہ ميں گرفتار ہوگي اور آپ کے اس ننھے بيٹے کو شہيد کردے گي۔ پھر جبرئيل نے ہاتھ بڑھا کر سفيد مٹي :اٹھائي اور بولے: آپ کا بيٹا اس سرزمين پر کہ جس کا نام طف ہے، مارا جائے گا۔

جبرئيل کے جانے کے بعد حضور۰ نے مٹي کو ہاتھ ميں لے کر گريہ کرنا شروع کيا اور اسي حالت ميں اصحاب کے ايک گروہ کے پاس پہنچے جن ميں حضرات ابوبکر، عمر، عليٴ، حذيفہ، عمار اور ابوذر شامل تھے۔ پھر فرمايا: جبرئيل نے مجھے خبر دي ہے کہ ميرا بيٹا حسينٴ ميرے بعد طف نامي سرزمين پر مارا جائے گا اور اس نے يہ مٹي مجھے دکھائي ہے کہ اس کي شہادت کا مقام اور قبر يہيں پر ہوگي۔ 

٣۔ عاشورہ اور امير المومنين عليٴ:

امير المومنين عليٴ سے کربلا اور عاشورہ سے متعلق متعدد روايات منقول ہيں۔ اہلسنت کي کتابوں ميں بھي عبد اللہ بن نجي اور اصبغ بن نباتہ وغيرہ سے اس حوالے سے روايات نقل ہوئي ہيں۔ ايک روايت ميں ابن عباس کہتے ہيں: جنگ صفين ميں ميں عليٴ کے ہمراہ سرزمين نينوا سے گزر رہا تھا کہ امامٴ نے فرمايا: اے ابن عباس! کيا تم اس سرزمين کو پہچانتے ہو؟ عرض کيا: نہيں اے امير المومنين! حضرتٴ نے فرمايا: اگر ميري طرح تم بھي اس کو پہچانتے تو ہرگز يہاں سے عبور نہ کرتے مگر يہ کہ ميري طرح گريہ کرتے۔ اس کے بعد گريہ کرنا شروع کيا يہاں تک کہ آپٴ کي ريشِ مبارک اشکوں سے بھيگ گئي اور آنسو سينہ پر بہنے لگے۔ ہم بھي ان کے ساتھ رونے لگے۔ حضرت عليٴ نے فرمايا: آخر ہمارا ابوسفيان، آلِ حرب، حزبِ شيطان اور اور اوليائے کفر سے کيا واسطہ! اسي حالت ميں فرمايا: صبراً يا اباعبداللّٰہ ۔۔۔! اے حسين صبر کرو۔ پھر بہت گريہ فرمايا اور ہم بھي ان کے ساتھ روتے رہے يہاں تک آپٴ منہ کے بل زمين پر گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے۔ 

حمزہ کي شہادت کے بعد يہ رسم تھي کہ ہر عزاداري ميں پہلے حمزہ کے لئے گريہ کيا جاتا تھا ۔ يہ رسم امام حسينٴ کي شہادت تک جاري رہي اور اس کے بعد لوگ امامٴ کے لئے گريہ کيا کرتے تھے۔ 

یوم عاشورہ کے موقع پر دنیا بھر میں مجلس و ماتم/ کربلا میں قیامت کا منظر

٤۔ عاشورہ اور امام حسنٴ:

امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام اپنے سخت ترين مصائب کے باوجود امام حسينٴ کي زندگي ہي ميں آپ کے مصائب پر گريہ کرتے تھے۔ ابن نما کہتا ہے: امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام مريض تھے اور حسينٴ بن عليٴ ان کي عيادت کے لئے تشريف لائے۔ جب کمرے ميں داخل ہوئے اور بھائي کي حالت کو دگرگوں پايا تو گريہ کرنے لگے۔ امام مجتبيٰ نے فرمايا: گريہ کيوں کرتے ہو؟ جواب ديا: بھيا! گريہ کيوں نہ کروں کہ (دشمنوں نے) آپ کو مسموم اور مجھے بے برادر کرديا ہے۔

امام حسنٴ نے فرمايا: بھيا مجھے زہر سے قتل کرتے ہيں (جب کہ ميرے لئے تمام چيزيں موجود ہيں) ليکن لايوم کيومک ياابا عبد اللّٰہ! کوئي دن تيرے دن جيسا نہيں اے حسين! کہ جس دن تيس ہزار ايسے لوگ جو اپنے آپ کو ہمارے جد کي امت ميں سے سمجھتے ہوں گے، تمہارا محاصرہ کرليں گے اور تمہيں قتل کرنا، تمہارا خون بہانا اور تمہارا مال و اسباب لوٹنا چاہيں گے۔ خدا کي لعنت ہو بنو اميہ پر ۔ تم پر آسمان و زمين اور سمندر کے جانور گريہ کريں گے۔

٥۔ عاشورہ امام زين العابدينٴ کي نظر ميں :

امام زين العابدينٴ جو کہ خود نزديک سے عاشورائ کے واقعات کا مشاہدہ کر چکے تھے، وہ کبھي اس کو بھلا نہ سکے اور آخري سانس تک ان واقعات پر آنسو بہاتے رہے اور دوسروں کو رونے کي ترغيب ديتے رہے۔ جب کبھي آپٴ کي نظر غذا اور پاني پر پڑتي آپٴ گريہ فرماتے۔ ايک دن آپٴ کے ايک خادم نے عرض کيا: کيا اب بھي آپ کے غم و اندوہ کے خاتمے کا وقت نہيں ہوا۔ فرمايا: 

وائے ہو تم پر! يعقوبٴ کے بارہ بيٹے تھے، خدا نے ان ميں سے ايک کو ان کي آنکھوں سے دور کرديا، غم و حزن کي وجہ سے حضرت يعقوبٴ کي آنکھيں سفيد ہوگئيں حالانکہ يوسف اس وقت زندہ تھے۔ ليکن ميري آنکھوں کے سامنے ميرے بابا، بھائي، چچا اور ميرے اہلبيت سے سترہ افراد اور بابا کے اصحاب کا ايک گروہ شہيد کرديا گيا اور ان کے سروں کو تن سے جدا کرديا گيا، ميرا غم کس طرح ختم ہوسکتا ہے؟!

اس کے علاوہ کربلا ميں اہلبيت کے حرم کو اسير کيا گيا کہ يہ داغ ہرگز بھلايا نہيں جاسکتا۔

 اسي طرح يہ بھي نقل ہوا ہے کہ امام سجادٴ نے عبيد اللہ بن عباسٴ بن عليٴ کو ديکھا اور آپٴ کے اشک جاري ہوگئے۔ پھر فرمايا: رسول اللہ کے لئے اُحد سے بڑھ کر سخت دن کوئي نہيں تھا کہ جس دن آپ۰ کے چچا اور خدا و رسول۰ کے شير مارے گئے اور اس کے بعد موتہ سے بڑھ کر سخت دن کوئي نہ تھا جب آپ۰ کے چچازاد بھائي جعفر بن ابوطالب شہيد ہوئے۔

پھر فرمايا: کوئي دن امام حسينٴ کے دن (عاشورہ) کي طرح نہيں ہے (کيونکہ) تيس ہزار افراد جو اپنے آپ کو نبي۰ کي امت سمجھتے تھے، جمع ہوئے ۔ وہ فرزندِ رسول۰ کو قربۃً الي اللہ قتل کرنے کے درپے تھے۔ حالانکہ آپٴ نے انہيں نصيحت بھي کي ليکن انہوں نے نصيحت قبول نہ کي يہاں تک کہ انہيں دشمني ميں قتل کرديا۔

ماہِ مبارک رمضان ميں بھي امام سجادٴ افطار کے وقت عاشورہ کو ياد کرتے اور فرماتے: وا کربلا! وا کربلا! اور مسلسل اس جملے کو دہرايا کرتے کہ فرزندِ رسول۰ اس حالت ميں مارا گيا کہ خائف تھا! فرزندِ رسول۰ اس حال ميں مارا گيا کہ پياسا تھا۔ اس قدر ان جملوں کو دہرايا کرتے اور گريہ کرتے کہ آپ کا لباس اشکوں سے تر ہوجاتا۔ 

٦۔ عاشورہ امام باقرٴ کي نظر ميں:

بنواميہ کے ظالم حکمرانوں کي وجہ سے امام باقرٴ کے دور ميں عاشورہ کي زيادہ عظمت بيان نہ کي جاسکي بلکہ مجالس عزا کو خفيہ طور پر اور خاص افراد کي موجودگي ميں برپا کيا جاتا۔ امام باقرٴ اس زمانے کے شعرائ جيسے کميت بن زيد اسدي (متوفيٰ ١٢٦ ھ) کو دعوت ديتے کہ وہ مصائبِ اہلبيت ميں اشعار پڑھيں۔ مالک جہني کہتا ہے: 

امام باقرٴ نے عاشورہ کے بارے ميں فرمايا: روزِ عاشور امام حسينٴ کے لئے مجلسِ عزا برپا کرو اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے مصائب پر گريہ کرو اور ان پر اپنے غم و اندوہ کا اظہار کرو اور ايک دوسرے سے ملاقات ميں (اس طرح) تعزيت پيش کرو: اَعْظَمَ اللّٰہُ اُجورَنا بِمُصابِنا الْحُسَينِ وَ جَعَلَنَا وَ اِيَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِيْنَ بِثَارِہ مَعَ وَلِيِّہِ الْاِمامِ الْمَہْدِي مِنْ آلِ محمد۰۔ جو شخص اس عمل کو انجام دے گا اس کے لئے خدا کے پاس دو ہزار حج و عمرہ اور رسولِ خدا اور ائمہ راشدين ميں سے کسي ايک کے ساتھ جہاد کے ثواب کي ميں ضمانت ديتا ہوں۔

ايک مجلس عزا ميں امام باقرٴ کي موجودگي ميں کميت اشعار پڑھ رہے تھے کہ اس شعر پر پہنچے:

و قتيل بالطف غودر منہ

بين غوغائ امۃ و طعاہ 

امام باقرٴ نے بہت گريہ کيا پھر فرمايا: اگر ميرے پاس کچھ مال ہوتا تو اس شعر کے اجر ميں وہ کميت کو عطا کرديتا ليکن اس کي جزا وہي دعا ہے جو رسول اللہ ۰ نے اپنے دور کے مشہور شاعر حسان بن ثابت کے حق ميں کي تھي کہ ہم اہلبيت کا دفاع کرنے کي وجہ سے روح القدس کي تائيد تمہيں ہميشہ حاصل رہے گي۔ 

ايک اور حديث ميں امام باقرٴ سے منقول ہے کہ جب کبھي ماہِ محرم شروع ہوتا تو ميرے بابا امام زين العابدينٴ کو کوئي ہنستے ہوئے نہيں ديکھتا تھا۔ وہ روزِ عاشور تک مسلسل غم و اندوہ کي حالت ميں رہتے۔ اور جب روزِ عاشور ہوتا تو وہ آپٴ کے غم و اندوہ، گريہ و زاري اور مصيبت کا دن ہوتا۔

امامٴ نے علقمہ سے فرمايا: جس حد تک ہوسکے اس دن (روزِ عاشور) اپني ضروريات کي خاطر گھر سے باہر نہ نکلو، کيونکہ يہ ايک نحس دن ہے اور انسان کي حاجت پوري نہيں ہوگي، اور اگر پوري ہوگئي تو اس ميں خير و برکت نہ ہوگي۔ اور اس دن اپنے گھر کے لئے کھانے کا ذخيرہ بھي نہ کرو، کہ اگر تم نے ذخيرہ کيا تو اس ميں خير و برکت نہ ہوگي۔

٧۔ عاشورہ امام جعفر صادقٴ کي نظر ميں:

عاشورہ کي اہميت اور اس کي تبليغ و ترويج اور عزاداري و گريہ و زاري پر امام جعفر صادقٴ نے متعدد جملے بيان فرمائے ہيں۔ ان ميں سے بعض کي طرف اشارہ کرتے ہيں۔

عبد اللہ بن سنان کہتا ہے: عاشور کے دن ميں امام جعفر صادقٴ کي خدمت ميں پہنچا۔ ميں نے آپٴ کو اس حالت ميں ديکھا کہ چشمِ مبارک سے موتي کي مانند اشک جاري تھے ۔ ميں نے عرض کيا: اے فرزندِ رسول۰! خدا آپ کي آنکھوں ميں آنسو نہ لائے، کيوں گريہ فرما رہے ہيں؟ فرمايا: کيا تم آج کے دن کي اہميت سے غافل ہو؟ اور کيا نہيں جانتے کہ آج کے دن کيا گذرا؟ کہا: اے ميرے مولا! آپ آج کے دن کے روزے کے بارے ميں کيا فرماتے ہيں؟ فرمايا: آج کے دن بغير نيت کے روزہ رکھو ليکن اسے آخر تک نہ پہنچانا يعني غروب آفتاب سے ايک ساعت قبل پاني سے افطار کرلينا۔ کيونکہ اسي وقت آلِ رسول۰ پر سے جنگ ختم ہوئي تھي اور وہ عظيم فتنہ فرو ہوا تھا۔ راوي کہتا ہے: يہ باتيں بيان کرنے کے بعد امامٴ نے سخت گريہ کيا يہاں تک کہ آپ کي ريشِ مبارک تر ہوگئي۔

عبد اللہ بن فضل ہاشمي کہتا ہے: ميں امام صادقٴ کے پاس پہنچا اور عرض کيا: اے فرزندِ رسول۰! روزِ عاشور کو غم و اندوہ اور گريہ و زاري کا دن کيوں کہا گيا ہے؟ اور عزاداري امام حسينٴ کي اس دن ميں اہميت بيان ہوئي ہے؟ اور جو اہميت اس دن کي عزاداري کو حاصل ہے وہ رسول اکرم۰، عليٴ، فاطمہ زہراٴ اور امام حسنٴ کے ايام کو حاصل نہيں ہے؟ حضرتٴ نے فرمايا

امام حسينٴ کي شہادت کا دن تمام ايام سے عظيم تر مصيبت ہے ۔ اے عبداللہ! جان لو کہ آلِ عبا پانچ افراد تھے۔ جب نبي اکرم۰ اس دنيا سے رخصت ہوئے تو لوگ اپنے آپ کو (باقي) چار افراد سے تسلي دے ديا کرتے تھے۔ اور جب بي بي فاطمہ زہراٴ شہيد ہوئيں تو لوگ امير المومنينٴ، حسنٴ اور حسينٴ سے دل کو تسلي دے ليتے تھے۔ پھر جب عليٴ شہيد ہوئے تو لوگوں کو حسنٴ اور حسينٴ کي ذات سے ڈھارس تھي اور حسنٴ کے بعد لوگ امام حسينٴ کے وجود پر اکتفائ کرتے تھے۔ ليکن جب امام حسينٴ شہيد ہوئے ، تو آلِ عبا اس دن يکدم شہيد ہوگئے، کيونکہ امام حسينٴ ان سب کي يادگار تھے۔ اس لئے اس دن کا سوگ زيادہ سنگين ہے۔

بي بي زينبٴ نے بھي روزِ عاشور اسي بات کي طرف اشارہ کيا اور فرمايا: آج کے دن (امام حسينٴ کي شہادت سے) ميرے نانا، بابا، ماں اور بھائي اس دنيا سے رخصت ہوگئے۔ 

اسي طرح زيد شحام سے منقول ہے کہ ميں اہلِ کوفہ کے ايک گروہ کے ہمراہ امام جعفر صادقٴ کي خدمت ميں موجود تھا کہ مشہور عرب شاعر جعفر بن عفال وہاں آيا۔ آنحضرتٴ نے اس کا احترام کيا اور اپنے نزديک جگہ عنايت کي۔ پھر فرمايا: اے جعفر! کہنے لگا: لبيک! ميں آپ پر فدا ہوجاوں۔ فرمايا: مجھے بتايا گيا ہے کہ تم نے حسينٴ کے بارے ميں خوبصورت اشعار کہے ہيں۔ بولا: جي! فرمايا: اپنے شعر سناو۔ اس نے چند اشعار سنائے تو امامٴ اور وہاں موجود لوگ اس طرح سے گريہ کر رہے تھے کہ آنسو امامٴ کي ريشِ مبارک پر جاري تھے۔ پھر فرمايا: اے جعفر ! خدا کے فرشتے حاضر ہيں اور انہوں نے تمہاري آواز سني ہے۔ ہماري طرح انہوں نے بھي گريہ کيا ہے بلکہ اس سے بھي زيادہ۔ خدا نے تمہارے لئے بہشت کو واجب کرديا اور تمہيں بخش ديا ہے۔

٨۔ عاشورہ اور امام موسيٰ کاظمٴ:

امام کاظمٴ کا زمانہ گھٹن کا دور تھا اور بنو عباس کي کڑي نگراني تھي اسي لئے آپٴ کي زندگي کا بڑا حصہ قيدخانے ميں گذرا۔ اس زمانے ميں عزاداري کي مجالس ميں رونق نہيں ہوا کرتي تھي، اس کے باوجود عاشورہ کے آتے ہي آپٴ غمگين ہوجاتے اور اس دن کو غم و اندوہ کا دن شمار کرتے۔ امام رضاٴ فرماتے ہيں: ماہِ محرم کے شروع ہوتے ہي ميرے بابا موسيٰ بن جعفرٴ کو ہنستے ہوئے نہيں ديکھا جاتا تھا اور وہ سرتاپا غم و اندوہ ميں ڈوب جاتے تھے۔ عاشور کا دن آپٴ کي مصيبت کا اور آہ و بکائ کا دن ہوا کرتا تھا۔

٩۔ عاشورہ اور امام رضاٴ:

امام رضاٴ نے فرمايا: جو شخص روزِ عاشور اپنے کاموں اور حاجتوں کے لئے نہ جائے خدا اس کي دنيا و آخرت کي حاجات بر لاتا ہے اور اگر کوئي شخص عاشور کے دن کو غم و اندوہ کا دن قرار دے خدائے عز و جل قيامت کے دن کو اس کے لئے خوشي و سرور کا دن قرار دے گا اور جنت ميں اس کي آنکھيں ہمارے ديدار سے روشن ہوں گي۔ ليکن اگر کوئي شخص روزِ عاشور کو برکت اور معاش کا دن بنائے اور اپنے گھرکے لئے کوئي چيز ذخيرہ کرے تو جس چيز کا وہ ذخيرہ کرے گا اس ميں برکت نہيں ہوگي۔دعبل خزاعي اہلبيتِ رسول۰ سے عقيدت رکھنے والے ماہر شاعر ہيں۔ وہ ١٩٨ ھ ميں شہر مرو ميں امام رضاٴ کي خدمت ميں پہنچے۔ وہ کہتے ہيں: ميں مرو ميں اپنے آقا علي بن موسيٰ الرضاٴ کے پاس پہنچا۔ اس وقت آپٴ کے اصحاب حلقہ باندھے وہاں بيٹھے تھے اور امامٴ کے چہرے سے غم و اندوہ عياں تھا۔ ميرے وارد ہوتے ہي امامٴ نے فرمايا: تم کتنے خوش قسمت ہو کہ اپنے ہاتھ اور زبان کے ذريعے ہماري مدد کرتے ہو۔ پھر مجھے عزت دي اور اپنے نزديک جگہ عنايت فرمائي۔ فرمايا: ميں چاہتا ہوں کہ ميرے لئے مرثيہ پڑھو۔ يہ ايام ہم اہلبيت کے لئے غم و اندوہ کے ايام اور ہمارے دشمنوں خصوصاً بنو اميہ کے لئے خوشي کے ايام ہيں۔ اس کے بعد امام رضاٴ نے مجلس امام حسينٴ ميں اپنے حرم کي شرکت کے لئے پردہ لگايا اور مجھ سے فرمايا: اے دعبل مرثيہ پڑھو۔ تم جب تک زندہ ہو، اہلبيت رسول۰ کے ياور اور ان کے مداح ہوگے۔ ميري آنکھوں ميں اس طرح آنسو آگئے کہ اشک ميرے چہرے پر جاري ہوگئے، پھر ميں نے يہ شعر کہا:

اقاطم لو خلت الحسين مجدلا

و قد مات مات عطشاناً بشط الفرات

امام رضاٴ، ان کے فرزند اور گھر کے افراد نے شدت سے گريہ فرمايا۔

١٠۔عاشورہ اور امام محمد تقيٴ، امام علي نقيٴ، امام حسن عسکريٴ اور امام زمانہٴ:

امام محمد تقيٴ کے زمانے ميں امام حسينٴ کي عزاداري کي مجالس علويوں کے گھروں ميں اعلانيہ طور پر برپا ہوتي تھيں ليکن معتصم عباسي کے بعد اس کے جانشينوں نے مجالس عزاداري کے انعقاد حتيٰ کہ ائمہ معصومين اور شہداء کي قبروں کي زيارت پر سخت پابندي لگا دي تھي۔ 

امام علي النقيٴ کي زندگي سخت گھٹن کے ماحول ميں گزر رہي تھي اور حاکمِ وقت‘ متوکل عباسي‘ کو امامٴ اور ان کے شيعوں سے سخت دشمني تھي۔ وہ اپني بدنيتي اور بدعملي ميں اس حد تک آگے بڑھا کہ اس نے قبرِ امام حسينٴ کو ويران اور اس کے آثار کو تباہ کرديا۔ 

ابوالفرج اصفہاني کہتا ہے: متوکل خاندانِ ابوطالب کي نسبت بہت سخت گير تھا اور علويوں کے اعمال کي کڑي نگراني کرتا تھا۔ اس کا دل علويوں کي نسبت سخت بغض و کينہ سے پُر تھا۔ اسي لئے وہ ان پر بے بنياد الزامات لگاتا رہتا تھا۔ متوکل کي سخت گيري اس حد تک بڑھي کہ اس سے پہلے کے کسي خليفہ نے اتني جرآت نہيں کي تھي۔ اس کے حکم پر قبرِ امام حسينٴ کو اس طرح ويران کيا گيا کہ اس کا کوئي اثر باقي نہ رہا اور آپٴ کي قبر کے راستے ميں ايسي چوکياں بنائي گئيں جہاں پر زيارتيہ حالات امام حسن عسکريٴ کے دورِ امامت تک جاري رہے ليکنکے لئے جانے والوں کو گرفتار کيا جاتا اور ان کو سزا دي جاتي۔

شيعہ اور علوي خوفزدہ نہيں ہوئے اور تاريخ ميں ہميشہ اموي اور عباسي ظالم حکمرانوں کے ساتھ مثبت يا منفي مقابلہ کرتے رہے، کبھي زيارتِ قبور اور قاتلانِ ائمہ پر لعنت کے ذريعے تو کبھي شہيدوں اور خصوصاً شہدائے کربلا پر گريہ و زاري و عزاداري کے ذريعے سے۔

بے شک امام زمانہٴ بھي عاشورہ کي عظمت کے حوالے سے اپنے اجداد کي سيرت کو قائم رکھے ہوئے ہيں اور اپنے جد بزرگوار حسينٴ بن عليٴ پر دن رات گريہ کرتے ہيں، جيسا کہ زيارتِ ناحيہ مقدسہ ميں آيا ہے: 

لاندبنک صباحاً و مسائً و لابکين عليک بدل الدموع دما۔ 

ہر صبح شام (اے جد بزرگوار) آپ پر گريہ کرتا ہوں اور (اگر اشک ختم ہوگئے تو) آنسووں کے بدلے خون رووں گا۔

بشکریہ Irfan.ir

نظرات بینندگان
captcha