افغانستان، ایران کی فتح، امریکہ کی شکست

IQNA

افغانستان، ایران کی فتح، امریکہ کی شکست

9:26 - August 23, 2021
خبر کا کوڈ: 3510080
محرم سے قبل ماضی کی طرح محرم کی مجالس اور جلوسوں میں دھماکے ہونگے، عزاداری پر قدغن لگے گی، مگر طالبان نے خود مجالس میں شرکت کرکے اور اہل تشیع کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا کر صورتحال یکسر تبدیل کر دی.

طالبان کی جانب سے کابل فتح کرنے کے بعد دو طرح کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ طالبان مخالفین کے سروں کے مینار بنائیں گے، ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور خواتین کو بالخصوص چاردیواری تک محدود کر دیا جائے گا۔ مغرب کی جانب سے بھی ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا، لیکن طالبان کے رویے اور پالیسی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ طالبان کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ افغان طالبان نے توقعات کے برعکس کابل میں کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ طالبان کی قیادت کی جانب سے عام معافی کا اعلان کیا گیا، جبکہ عملی طور پر دارالحکومت میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ دیکھنے میں نہیں آئی۔ غیر متوقع طور پر ہی سہی طالبان قیادت نے ملک میں خواتین کو کام پر جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا، داڑھی کو لازمی شرط کے طور پر اختیار کرنے کی نفی کی اور طالبان مخالف عناصر کو معاف کرنے کا اعلان کیا۔

 

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے بیان میں سرکاری ملازمین کو کام پر واپس آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ حالات کو ہر طرح سے معمول پر رکھا جائے گا۔ دوسری طرف امریکا، بھارت، برطانیہ سمیت متعدد ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کر دیئے ہیں جبکہ بعض نے سفارتی عملے کی بڑی تعداد کو واپس بلا لیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ افغانستان میں آنیوالی تبدیلی کیخلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں، جبکہ گذشتہ روز نئی دہلی نے اپنے سفارتی عملے کے 120 ارکان کو واپس بلا لیا۔ کابل سمیت افغانستان کے تقریباً تمام علاقوں پر قبضہ کے بعد اب عالمی برادری کو جلد یا بدیر، افغان طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ امریکی انتظامیہ نے اس سمت میں مثبت اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے انتقامی کارروائیاں نہ کی، خواتین کے حقوق کا تحفظ اور عالمی برادری کیلئے مثبت طرز عمل اختیار کیا تو ان کیساتھ کام کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے بھی کچھ دنوں سے اسی نوعیت کے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، جبکہ طالبان سے سیاسی و سفارتی تعلقات پر غور کیلئے یورپی یونین کا اجلاس بلایا جا چکا ہے۔

افغانستان، ایران کی فتح، امریکہ کی شکست

چین اور روس کی طرف سے پہلے ہی طالبان کیساتھ کام کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے، ان دونوں ممالک کے سفارتخانے بھی کابل میں معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ایرانی قیادت نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ طالبان کی طرف سے ایسے اقدامات نہیں کیے جائیں گے، جن سے خطے میں بے چینی کے حالات پیدا ہوں۔ ایرانی قیادت مسلسل طالبان سے رابطے میں ہے۔ محرم کے آغاز سے قبل خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ماضی کی طرح محرم کی مجالس اور جلوسوں میں دھماکے ہوں گے، عزاداری پر قدغن لگے گی، مگر طالبان نے خود مجالس میں شرکت کرکے اور اہل تشیع کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا کر صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔ طالبان کے اس رویے میں تبدیلی پر ایرانی قیادت کی حکمت عملی قابل داد ہے۔ ایران نے انتہائی جامع اور موثر حکمت عملی کے ذریعے امریکہ کو افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کیا ہے۔ بغیر خون خرابہ کئے، کابل کا فتح ہونا دراصل ایران کی جیت اور امریکہ کیلئے عبرتناک شکست ہے۔ یہ ایران کا ‘‘انتقام سخت’’  ہی ہے کہ امریکہ کو عراق کے بعد اب افغانستان سے بھی منہ کی کھانی پڑی اور سب کچھ چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔

 

ترک وزیر خارجہ نے کابل پر غلبہ کے بعد افغان طالبان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور کیے جانیوالے فیصلوں کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ طالبان قیادت آنیوالے وقت میں اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔ طالبان کی فتح کے بعد پاکستان نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے سفارتی و سیاسی پیش پیش قدمی کی پالیسی اختیار کی ہے، جو زمینی حقائق کی بنیاد پر بہترین طرزِ عمل ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے حالات میں بتدریج بہتری آتی دکھائی دے رہی ہے۔ افغان شہریوں میں پایا جانیوالا خوف کم ہو رہا، کابل میں معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے عام معافی کے اعلان نے سرکاری ملازمین کے حوصلے بڑھائے ہیں، جس سے سرکاری معمولات بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے جاری محاذ آرائی، خانہ جنگی اور بے یقینی کی صورتحال میں ٹھہرائو آنا شروع ہوگیا ہے۔ عالمی برادری، علاقائی ممالک اور افغانستان کی سیاسی قوتیں اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہیں کہ خطے کی سلامتی اور افغانستان کا امن افغان طالبان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

 

دنیا کے بڑے اور اہم ممالک غیر اعلانیہ طور پر افغان طالبان کی سیاسی حیثیت و اہمیت کو بھی تسلیم کرچکے ہیں، جس کا اعلانیہ اظہار اگلے چند دنوں میں ہو جائے گا۔ ویسے بھی افغان طالبان کی طرف سے جس قسم کے سیاسی و سفارتی اقدامات سامنے آرہے ہیں، وہ لائق ستائش ہیں۔ اس مرحلہ پر عالمی برادری اگر افغان طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو یہ افغانستان کو عالمی ترقی کے دھارے میں لانے کے لیے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کیلئے امریکا، برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک کو بطور خاص آگے بڑھ کر طالبان کے مثبت اقدامات کو موثر بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

 

افغانستان میں گذشتہ چار دہائیوں سے جاری حالات نے ثابت کیا ہے غیر ملکی مداخلت، استحصالی قوتوں کی سازش اور افغان عوام کی مرضی کیخلاف اقدامات سے خانہ جنگی، علاقائی عدم استحکام اور جارح ممالک کی معاشی و عسکری تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت، طالبان دور حکومت، نائن الیون اور نائن الیون کے بعد امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد کی فوجی کارروائیوں سے افغانستان کی بربادی ہوئی، افغان عوام دربدر ہوئے جبکہ خطے کے امن و استحکام پر سنگین خطرات منڈلاتے رہے۔ ان تمام تجربات کے بعد عالمی برادری کو بہرحال سمجھ لینا چاہیئے کہ افغان عوام کی منشا سے سیاسی حکومت کا قیام ہی افغانستان اور جنوب مغربی ایشیاء کے پُرامن مستقبل کا ضامن ہوگا۔ افغان طالبان نے 20 سال بعد دوسری مرتبہ ثابت کیا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اور تعمیر نو کیلئے کسی بھی دوسرے سیاسی فریق کی نسبت بہتر انتخاب ہیں۔

 

جہاں تک طالبان کے نظریات کی بات ہے تو اس بار خواتین کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم، انتقامی کارروائیوں سے اجتناب اور معمول کی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں مدد دینے کی شکل میں ایک واضح اور مثبت تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس مثبت تبدیلی کو بنیاد بنا کر افغانستان کی تعمیر نوء اور بحالی امن کی طرف پیش قدمی میں معاونت کرے۔ طالبان نے اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور اظہار کیا ہے، ان کے اقدامات سے بھی سیاسی پختگی دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مزید رکاوٹیں کھڑی کرنے اور خواہ مخوا کی سفارتی رخنہ اندازیوں کے بجائے افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں کو تقویت دی جائے، تاکہ علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات کم کرنے میں مدد مل سکے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو خطے میں بھی خوشحالی آئے گی۔ بھارت کی سرمایہ کاری ڈوبنے سے جہاں مودی سرکار سکتے میں ہے، وہیں دہشتگردی کے واقعات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے.

تصویر حسین شہزاد

نوٹ- ایکنا کا تجزیے سے رائے یکساں ہونا ضروری نہیں۔

نظرات بینندگان
captcha