افغان طالبان سے محتاط اور داعش کے علمبردار سے غفلت کیوں؟

IQNA

افغان طالبان سے محتاط اور داعش کے علمبردار سے غفلت کیوں؟

10:25 - August 25, 2021
خبر کا کوڈ: 3510096
تہران(ایکنا) ملک کے مرکز میں بیٹھ کرحکومت کو چیلنج کرنا اور کفریہ باتیں کسی طور ملک کی فلاح میں نہیں۔

افغان طالبان سے محتاط اور داعش کے علمبردار سے غفلت کیوں؟افغانستان کے اہم شہروں پر طالبان کا قبضہ ہوتے ہی دنیا والوں کے ذہنوں میں افغانستان کے اندر ایک خشن اور وحشی نظام کا تصور ابھر کر مجسم ہونے لگا۔ سبھی کا یہ خیال تھا کہ اب افغانستان طال ب ان کے ہاتھوں مقتل گاہ بنے گا، طالبان اپنے خشک عقائد کے مطابق زندگی گزارنے پر افغان مکینوں کو پابند کریں گے، اگر کسی نے سر مو کے برابر بھی مخالفت کی تو وہ اس کا سرقلم کرنے میں ہرگز دیر نہیں کریں گے۔ اسی ڈر اور خوف کے باعث شروع کے دنوں میں پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ بہت سے لوگ خالی ہاتھ بھاگے جا رہے ہیں اور ہوائی جہازوں کے پہیوں سے لپٹ کر اپنی جانیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واقعتاً طالبان کے خوف سے افغان عوام کے ملک سے فرار ہونے کا منظر بڑا کربناک تھا۔ مگر طالبان نے جب بظاہر اپنے ہدف کو پالیا اور افغانستان کے اہم مقامات پر قابض ہوچکے تو دنیا والوں کی توقع کے برخلاف انہوں نے نرم رویہ اختیار کیا۔ وہ افغان باشندوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔

 

انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ ہماری حکومت تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں طور پر دیکھے گی، ہر کوئی اپنی مذہبی رسومات اور عبادات بجالانے میں آزاد رہے گا۔ چنانچہ جب ایام محرم شروع ہوئے تو انہوں نے نہ فقط افغانستان کی شیعہ کمیونٹی کو مجالس برپا کرنے کی اجازت دی بلکہ انہوں نے خود بھی عزاداری کی مجالس میں شریک ہو کر دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ افغانستان کے اندر ط ال ب ان کی حکومت میں سارے انسان پرسکون رہیں گے اور سب آزادانہ طور پر اپنی عبادات و رسومات کو سرانجام دینے کے مجاز ہوں گے۔ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ روز عاشورا طالبان نے عزاداری کے جلوسوں کی فل سکیورٹی کا انتظام کیا اور عزاداران حسینی نے پورے اطمینان سے ماتم کیا، دل کھول کر نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرکے عزاداری کے معنوی فیوضات سے مستفید ہوئے۔

 

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے مشاورت جاری ہے، افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار جلد چاہتے ہیں، اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دنیا افغانستان کی ترقی میں کردار ادا کرے اور افغانستان میں سرمایہ کاری کرے، اس کے لیے حالات سازگار ہیں۔ ہمیں اپنی معیشت کو بحال کرنا ہے، تاکہ استحکام ہو اور موجودہ بحران سے باہر نکل سکیں، جس کے لیے ہمسایوں اور دیگر ممالک سے اچھے تعلقات کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے مطابق ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ احترام کا تعلق رکھیں گے۔۔۔۔

 

البتہ افغانستان میں بظاہر جنگ جیتنے والے طالبان ان سے متعلق یہ سوالات اپنی جگہ قانع جوابات کے تشنہ ہیں کہ کیا ط ال ب ان اپنے وعدوں پر کاربند رہیں گے؟ کیا انہوں نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کی خاطر افغان باشندوں کو فریب و دھوکہ تو نہیں دیا ہے۔؟ ان کا یہ حسن سلوک اور اخلاقی رویہ کیا کچھ مدت کے لئے ہے۔؟ کیا وہ واقعتاً اپنی سابقہ درندگی پر مبنی حرکتوں سے پشیمان ہوئے ہیں۔؟ کیا حقیقی معنوں میں وہ عزاداران حسینی کو عزاداری کی اجازت دیئے رکھیں گے۔؟ کیا وہ باپردہ لڑکیوں کو صدق دل سے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے پر راضی ہیں۔؟ کیا دو دہائی قبل والے ط ال ب ان اور موجودہ طالبان کی سوچ و فکر اور طرز عمل میں واقعی تبدیلی رونما ہوچکی ہے؟ اور ہزاروں سوالات۔۔۔۔۔ ان سوالات کے جوابات ابھی سے تلاش کرنا قبل از وقت ہے۔ آنیوالے دنوں میں طالبان کے اقدامات ان چیزوں کا تعین کریں گے، لیکن سردست وہ افغانیوں کی امنیت اور عمل کی آزادی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے حق میں نہیں۔ خدا کرے ان کی اس فکر میں بہار ہی رہے۔

 

افغان طالبان سے محتاط اور داعش کے علمبردار سے غفلت کیوں؟

دوسری طرف پاکستان کی لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز کی ناپاک سوچ کو دیکھ کر واقعتاً لگتا ہے کہ یزید زندہ ہوکر لال مسجد سے اپنی خلافت کا ڈھنڈورا پیٹے جا رہا ہے۔ چند دن قبل یوٹیوب پر ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا، جس میں نادر صاحب مولوی عبد العزیز سے انٹرویو لے رہا ہے، پوچھنے والا پوچھتا ہے کہ افغانستان میں بظاہر جنگ جیتنے والے ط ال ب ان کے رویئے سے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ انہوں نے تو شیعوں کی مجلس تک میں شرکت کی ہے اور عزاداران حسینی کو عزاداری سے متعلق کہا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ ہم فل سکیورٹی کا انتظام کریں گے۔ اس سوال کو سن کر مولوی سیخ پا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے عزاداری اور جلوس کی اجازت دے کر بڑی غلطی کی ہے بلکہ وہ کفریہ جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ افغانستان سمیت پاکستان میں ہرگز مجالس اور جلوس کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے، یہ عمل بدعت ہے، قرآن و سنت میں اس چیز کا کوئی ذکر نہیں۔ اب اس جاہل مولوی کو کون سمجھائے کہ عزاداری پیغمبر اکرم (ص) کی سنت ہے۔ آنحضرت نے حضرت حمزہ کی شہادت پر ماتم کیا، روئے اور بلا تردید یہ قرآن و سنت سے ہی ماخوذ تاکیدی سنت ہے۔

 

ایک اور سوال کے جواب میں مولوی پاکستان کے نظام کو کفریہ نظام قرار دیتے ہیں، ایران سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک کے نظام کو طاغوتی نظام کا نام دیتے ہیں۔ عرصہ دراز سے اہل علم جانتے ہیں کہ یہ مولوی پاکستان کی ریاست کے نظام اور قانون کے سرسخت مخالف ہے۔ پاکستانی فوج اور عدلیہ کو برا بھلا کہنا، دہشتگردی کو فروغ دینے کی باتیں کرنا اور دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے دے کر ان کی جان، مال اور ناموس کو حلال قرار دینا اس کی نمایاں شناخت ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ریاستی ادارے اس سے متعلق گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں، کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں۔ وہ اسلام آباد کے اندر بند کمرے میں بالکل شتر بے مہار بن کر ریاستی اداروں پر لعن طعن کرتے ہوئے سعودی ریال پر عیاشیاں کر رہے ہیں، مگر حکومتی اداروں میں کوئی مرد ابھی ایسا پیدا نہیں ہوا ہے، جو اسے لگام دے۔

 

ہمارے وزیراعظم عمران خان نے افغان طالبان ان کی کامیابی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑی جاچکی ہیں، تاہم خدشہ ہے کہ افغانستان میں آگے آنے والے دن کٹھن ہوں گے اور ان حالات کا پورے خطے پر اثر پڑے گا۔ ہم اتنا ہی عرض کرنا چاہیں گے کہ جناب وزیراعظم افغانستان کے طالبان کے حوالے سے آپ کا ارشاد بجا ہے، لیکن آپ جتنے محتاط افغان طالبان ان سے رہنا چاہتے ہیں، ضروری ہے کہ اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے اندر والے شدت پسند افراد سے محتاط رہیں۔ اس بات پر بھی توجہ رہے کہ انسانوں کے نظریات ہی وہ معیار ہوتے ہیں، جن سے بآسانی یہ تشخیص ہو جاتی ہے کہ وہ پاکستان کے دوست ہیں یا دشمن۔ لال مسجد کے شدت پسند مولوی عبدالعزیز جیسوں کے نظریات ہی پاکستان کی بنیادیں ہلانے کے لئے کافی ہیں تو سوال یہ ہے کہ حکومتی ادارے ایسے افراد سے غافل کیوں ہیں۔؟ آخری بات یہ ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ بابائے طالبان کا لقب پانے والے، اپنے گھر اور مدرسے کی چھتوں اور در و دیوار کو طالبان کے جھنڈوں سے مزین کرنے والے آج ان کی پالیسی کو کفریہ قرار دے رہے ہیں۔؟ ہم عمران خان سے اس سوال کا جواب لینا چاہییے کہ جناب وزیراعظم۔۔۔۔ افغان جنگجووں سے محتاط اور دا عش کے علمبردار سے غفلت کیوں۔؟

بقلم، ایم حسین جمالی

نوٹ: اس مضمون میں دی گئی رائے مصنف کی ہے ایکنا کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں

نظرات بینندگان
captcha