امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان

IQNA

امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان

17:56 - October 11, 2021
خبر کا کوڈ: 3510406
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا کو افغانستان کو امدادی پیکج دینا ہوگا یا کسی ایسے ملک کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا جو داعش کے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔

ڈان نیوز کے مطابق برطانوی آن لائن خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیر قیادت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک مرتبہ پھر بھاری قیمت ادا کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لیے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے، جب تک امریکا، قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے‘۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔

افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی، جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شمالی شہر قندوز میں اہل تشیع برادری سے منسلگ مسجد پر بمباری جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ ’دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا کرتے ہیں تو طالبان میں سخت گیر لوگ بھی موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی‘۔

واضح رہے کہ طالبان اب بھی امریکی محکمہ خزانہ کے پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو اس گروپ کو امریکی سینٹرل بینک میں موجود 9 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں تک رسائی سے روکتے ہیں۔

’پریشانی ہے کہ 1989 کا منتشر افغانستان دوبارہ نہ لوٹ آئے'

وزیراعظم نے سویت یونین کی واپسی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ اس طرح افغانستان کو چھوڑ دیں گے تو میری پریشانی یہ ہے کہ افغانستان پیچھے جاتے ہوئے 1989 کا افغانستان بن سکتا ہے جہاں انتشار کے دوران 2 لاکھ افغان ہلاک ہوگئے تھے‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’جو بائیڈن سن نہیں رہے تھے، ہم دونوں میں ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 2008 میں اس وقت کے امریکی سینیٹرز جو بائیڈن، جان کیری اور ہیری ریڈ کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک دلدل پیدا کر رہے ہیں جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تاہم انہوں نے نہیں سنا۔

 

نظرات بینندگان
captcha