ایکنا نیوز- خبررساں ادارے The National، کے مطابق جمعہ کے دن اسٹاک ہوم کے ایک محلے میں قرآن سوزی کے بعد خوف کی فضا قایم ہوچکی تھی۔
والدین، تاجر اور دیگر طبقوں کا خیال تھا کہ اس طرح کے اقدام سے نفرت انگیز ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ عید قربان ہی کے دن قرآن سوزی کی اجازت دیکر عجیب کام کیا گیا ہے۔
عراقی نژاد سلوان مومیکا سوئیڈش شہری نے قرآن مجید کی توہین کرکے سرعام جلایا جس پر شدید اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
پولیس کے مطابق اظھار رائے کی آزادی کی وجہ سے اس ۳۷ شہری کو اس کام کی اجازت دی گیی تھی تاہم اعتراضات کے بعد اسکا جایزہ لیا جارہا ہے۔
مسلمانوں کے شدید اعتراضات کےبعد اس کے ردعمل بعید از قیاس نہیں۔
سوئیڈن کے وزیراعظم اولف کریسٹرسن نے لوگوں کو پرامن رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
عراق میں عوام نے سوئیڈن کے سفارت خانے پردھاوا بول دیا۔
کریسترسن کا کہنا تھا کہ اس کے نتائج پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس اقدام کے بعد سوئیڈن کے بائیکاٹ کی مہم چل پڑی ہے اور نیٹو میں اس کی شمولیت کو بھی فی الحال روک دیا گیا ہے۔
جمعے کو جب لوگ مسجد کی طرف نماز کے لئے جارہے تھے جب وہاں قریبی علاقے میں نازیہ جو اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ انڈیا سے یہاں شفٹ ہوچکی ہے انہوں نے اس قرآن سوزی کو دیکھا، وہ یہاں سے نا امید ہوچکی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ دوسروں کے عیقدے کا لحاظ رکھا جائے، میں انڈیا سے ہوں میرے کافی ہندو اور عیسائی دوست ہیں ہم سب ایکدوسرے کا احترام کرتے ہیں، آج قرآن سوزی کی خبر کے بعد میں نماز پر آنے کے لئے تیار نہ تھی۔
تحقیقاتی مرکز «Sifo» کی سروے کے مطابق ۵۱ فیصد لوگ ملک میں قرآن سوزی کے خلاف ہیں۔
سروے میں معلوم ہوا ہے کہ ملک میں صرف ۳۴ فیصد لوگ قرآن سوزی کو درست سمجھتے ہیں۔/
4151525